Thursday 20 October 2016

شمشیرِ بے نیام پارٹ 15 بقیہ.

15
چیخ میں بہت فرق ہے۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’ لوگ اسے کسی مظلوم عورت کی چیخیں سمجھے تھے۔ وہ یہ سمجھ کر چپ ہو گئے کہ کسی عورت کو ڈاکو لے جا رہے ہوں گے یا وہ کسی ظالم خاوند کی بیوی ہو گی اور وہ سفر میں ہوں گے ۔لیکن اگلی رات یہی چیخیں ایک اور بستی کے قریب سنائی دیں ۔وہاں کے چند آدمی بھی ان چیخوں کے تعاقب میں گئے لیکن انہیں کچھ نظرنہ آیا ۔اس کے بعد دوسری تیسری رات کچھ دیر کیلئے یہ نسوانی چیخیں سنائی دیتیں ا ور رات کی خاموشی میں تحلیل ہو جاتیں ۔پھر ان پہاڑیوں کے اندر رہنے والے لوگوں نے بتایا کہ اب چیخوں کے ساتھ عورت کی پکار بھی سنائی دیتی ہے۔جرید……جرید……کہاں ہو ؟آجاؤ۔وہاں کے لوگ جرید نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتے تھے ۔ان کے بزرگوں نے کہا کہ یہ کسی مرے ہوئے آدمی کی بدروح ہے جو عورت کے روپ میں چیخ چلارہی ہے ۔ابو جریج کے بولنے کا انداز میں ایسا تاثر تھا جو ہرکسی کو متاثر کر دیا کرتا تھا لیکن خالد کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا جس سے پتا چلتا کہ وہ قبیلہ غطفان کے اس بوڑھے کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے۔’’ لوگوں نے اس راستے سے گزرنا چھوڑ دیا۔ جہاں یہ آوازیں عموماً سنائی دیا کرتی تھیں ۔‘‘ابو جریج نے کہا ۔’’ایک روز یوں ہوا کہ دو گھوڑ سوا ر جو بڑے لمبے سفر پر تھے ،ایک بستی میں گھوڑے سرپٹ دوڑاتے پہنچے۔گھوڑوں کا پسینہ یوں پھوٹ رہا تھا جیسے وہ پانی میں سے گزر کر آئے ہوں ۔ہانپتے کانپتے سواروں پر خوف طاری تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک وادی میں سے گزر رہے تھے کہ انہیں کسی عورت کی پکار سنائی دی۔جریدٹھہرجاؤ…… جرید ٹھہرجاؤ…… میں آ رہی ہوں۔ان گھوڑ سواروں نے اُدھر دیکھا جدھر سے آواز آ رہی تھی۔ایک پہاڑ ی کی چوٹی پر ایک عورت کھڑی ان گھوڑ سواروں کو پکار رہی تھی ۔وہ تھی تو دور لیکن جوان لگتی تھی ۔وہ پہاڑی سے اترنے لگی تو دونوں گھوڑ سواروں نے ڈر کر ایڑھ لگا دی ۔’’سامنے والی چٹان گھومتی تھی ۔گھوڑ سوار اس کے مطابق وادی میں گھوم گئے ۔انہیں تین چار مزید موڑ مڑنے پڑے گھبراہٹ میں وہ راستے سے بھٹک گئے تھے۔ وہ ایک اور موڑ مڑے تو ان کے سامنے تیس چالیس قدم دور ایک جوان عورت کھڑی تھی جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ نیم برہنہ تھی۔اس کا چہرہ لاش کی مانند سفید تھا ۔گھوڑسواروں نے گھوڑے روک لیے ۔عورت نے دونوں بازو ان کی طرف پھیلا کر اورآگے کو دوڑتے ہوئے کہا۔ میں تم دونوں کے انتظار میں بہت دنوں سے کھڑی ہوں۔ دونوں گھوڑسواروں نے وہیں سے گھوڑے موڑے اور ایڑھ لگا دی ۔‘‘بوڑھا جریج بولتے بولتے خاموش ہو گیا۔اس نے اپنا ہاتھ خالد کی ران پر رکھا اوربولا ۔’’میں دیکھ رہاہوں کہ تمہارے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ ہم کچھ دیرکیلئے رک جائیں پھر نہ جانے تم کب ملو،تمہارا باپ ولید بڑا زبردست آدمی تھا۔ تم میرے ہاتھوں میں پیدا ہوئے تھے۔ میں تمہاری خاطر تواضع کرنا چاہتا ہوں۔روکو گھوڑے کو اور اتر آؤ۔‘‘
یہ قافلہ وہیں رک گیا۔’’و ہ کسی مرے ہوئے آدمی یا عورت کی بدروح ہی ہو سکتی تھی۔‘‘ابو جریج نے بھنا ہوا گوشت خالد کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔’’کھاؤ ولید کے بیٹے !پھر ایک خوفناک واقعہ ہو گیا۔ایک بستی میں ایک اجنبی اس حالت میں آن گرا کہ اس کے چہرہ پر لمبی لمبی خراشیں تھیں جن سے خون بہہ رہاتھا ۔اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور جسم پر بھی خراشیں تھیں ۔وہ گرتے ہی بے ہوش ہوگیا۔ لوگوں نے اس کے زخم دھوئے اور اس کے منہ میں پانی ڈالا۔وہ جب ہوش میں آیا تو اس نے بتایا کہ وہ دو چٹانوں کے درمیان سے گزر رہا تھا کہ ایک چٹان کے اوپر سے ایک عورت چیختی چلاتی اتنی تیزی سے اُتری جتنی تیزی سے کوئی عورت نہیں اتر سکتی تھی۔یہ آدمی اس طرح رک گیا جیسے دہشت زدگی نے اس کے جسم کی قوت سلب کرلی ہو۔ وہ عورت اتنی تیزی سے آ رہی تھی کہ رُک نہ سکی ،وہ اس آدمی سے ٹکرائی اور چیخ نماآواز میں بولی ۔تم آ گئے جرید! میں جانتی تھی تم زندہ ہو۔آؤ چلیں۔اس شخص نے اسے بتایا کہ وہ جرید نہیں لیکن وہ عورت اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتی رہی اور کہتی رہی تم جرید ہو ،تم جرید ہو۔اس شخص نے اس سے آزاد ہونے کی کوشش میں اسے دھکا دیا وہ گر پڑی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ آدمی اسے کوئی پاگل عورت سمجھ کر وہیں کھڑا رہا۔وہ اس طرح اس کی طرف آئی کہ اس کے دانت بھیڑیوں کی طرح باہرنکلے ہوئے تھے اور اس نے ہاتھ اس طرح آگے کر رکھے تھے کہ اس کی انگلیاں درندوں کے پنجوں کی طرح ٹیڑھی ہو گئی تھیں ۔وہ آدمی ڈر کر الٹے قدم پیچھے ہٹا اور ایک پتھر سے ٹھوکر کھا کر پیٹھ کے بل گرا۔یہ عورت اس طرح اس پر گری اور پنجے اس کے چہرے پر گاڑھ دیئے جیسے بھیڑیا اپنے شکار کو پنجوں میں دبوچ لیتاہے ۔اس نے اس آدمی کا چہرہ نوچ ڈالا۔اس نے اس عورت کو دھکا دے کر پرے کیا اور اس کے نیچے سے نکل آیا۔لیکن اس عورت نے اپنے ناخن اس شخص کے پہلوؤں میں اتار دیئے ا ور اس کے کپڑے بھی پھاڑ ڈالے اور کھال بھی بری طرح زخمی کردی۔اس زخمی نے بتایا کہ اس عورت کی آنکھوں اور منہ سے شعلے سے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے تھے،وہ اسے انسانوں کے روپ میں آیا ہوا کوئی درندہ سمجھا۔
اس آدمی کے پاس خنجر تھا لیکن اس کے ہوش ایسے گم ہوئے کہ و ہ خنجرنکالنابھول گیا۔اتفاق سے اس آدمی کے ہاتھ میں اس عورت کے بال آ گئے۔ اس نے بالوں کو مٹھی میں لے کر زور سے جھٹکا دیا ۔وہ عورت چٹا ن پر گری۔ یہ آدمی بھاگ اٹھااسے اپنے پیچھے اس عورت کی چیخیں سنائی دیتی رہیں ۔اسے بالکل یاد نہیں تھا وہ اس بستی تک کس طرح پہنچا ہے ۔وہ ان خراشوں کی وجہ سے بے ہوش نہیں ہوا تھا۔ اس پر دہشت سوار تھی۔پھر دو مسافروں نے بتایا کہ انہوں نے راستے میں ایک آدمی کی لاش پڑی دیکھی ہے جسے کسی درندے نے چیر پھاڑ کر ہلاک کیا ہو گا۔انہوں نے بتایا کہ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور تمام جسم پر خراشیں تھیں،اس جگہ کے قریب جس جگہ اس عورت کی موجودگی بتائی جاسکتی تھی، چھوٹی سی ایک بستی تھی ۔وہاں کے لوگوں نے نقل مکانی کا ارادہ کرلیا لیکن یہودی جادوگر لیث بن موشان پہنچ گیا۔ اسے کسی طرح پتا چل گیا تھا کہ ایک عورت اس علاقے میں جرید جرید پکارتی اور چیختی چلاتی رہتی ہے اور جو آدمی اس کے ہاتھ آ جائے اسے چیر پھاڑ دیتی ہے ۔‘‘ابو جریج نے خالد کو باقی کہانی یوں سنائی ۔اسے بدروحوں کے علم کے ساتھ گہری دلچسپی تھی اور وہ لیث بن موشان کو بھی جانتا تھا۔ جب اسے پتا چلا کہ یہودی جادوگر وہاں پہنچ گیا ہے تو وہ بھی گھوڑے پر سوا رہوا اور وہاں جا پہنچا۔وہ اس بستی میں جا پہنچا جہاں لیث بن موشان آکر ٹھہرا تھا۔’’ابو جریج!‘‘ بوڑھے لیث بن موشان نے اٹھ کر بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔’’تم یہاں کیسے آ گئے؟‘‘’’میں یہ سن کہ آیا ہوں کہ تم اس بد روح پر قابو پانے کیلئے آئے ہو۔‘‘ابو جریج نے اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا۔’’کیا میں نے ٹھیک سنا ہے کہ اس بدروح نے یا وہ جو کچھ بھی ہے،دو تین آدمیوں کو چیر پھاڑ ڈالا ہے؟‘‘’’وہ بد روح نہیں میرے بھائی!‘‘ لیث بن موشان نے ایسی آواز میں کہا جو ملال اور پریشانی سے دبی ہوئی تھی۔’’وہ خدائے یہودہ کی سچی نام لیوا ایک جوان عورت ہے۔اس نے اپنی جوانی ا پنا حسن اور اپنی زندگی یہودیت کے نام پر وقف کررکھی تھی۔اس کانام یوحاوہ ہے۔‘‘’’میں نے اسے مکہ میں دو چار مرتبہ دیکھا تھا۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’اسکے کچھ جھوٹے سچے قصے بھی سنے تھے۔یہ بھی سنا تھاکہ اس نے قریش کے ایک آدمی جرید بن مسیّب کو تمہارے پاس لا کر محمد)ﷺ( کے قتل کیلئے تیار کیاتھا پھر میں نے یہ بھی سنا تھاکہ تم اور یوحاوہ مسلمانوں کے محاصرے سے نکل گئے تھے اور جرید پیچھے رہ گیا تھا ۔اگر یوحاوہ زندہ ہے اوروہ بدروح نہیں تو وہ اس حالت تک کس طرح پہنچی ہے؟‘‘’’ا س نے اپنا سب کچھ خدائے یہودہ کے نام پر قربان کر رکھا تھا۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’ لیکن وہ آخر انسان تھی، جوان تھی ،وہ جذبات کی قربانی نہ دے سکی۔ اس نے جرید کی محبت کو اپنی روح میں اتارلیاتھا۔جرید­پرجتنا اثرمیرے خاص عمل کا تھا۔اتنا ہی یوحاوہ کی والہانہ محبت کا تھا۔‘‘
’’میں سمجھ گیا۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’اسے جرید بن مسےّب کی موت نے پاگل کر دیا ہے ۔کیا تمہارا عمل اور جادو اس عورت پر نہیں چل سکتا تھا؟‘‘لیث بن موشان نے لمبی آہ بھری اوربے نور آنکھوں سے ابو جریج کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھااور کچھ دیر چپ رہنے کے بعد کہا۔’’میرا عمل اس پرکیا اثر کرتا۔وہ مجھے بھی چیر پھاڑنے کومجھ پر ٹوٹ پڑتی تھی۔میرا عمل اس صورت میں کام کرتا کہ میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتا اور میرا ہاتھ تھوڑی دیرکیلئے اس کے ماتھے پر رہتا۔‘‘’’جہاں تک میں اس علم کو سمجھتا ہوں۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’وہ پہلے ہی پاگل ہو چکی تھی اور تمہیں اپنا دشمن سمجھنے لگی تھی۔‘‘’’اور اسے میرے خلاف دشمنی یہ تھی کہ میں جرید بن مسےّب کو مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آیا تھا ۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’میں اسے اپنے ساتھ لا سکتا تھا لیکن وہ اس حد تک میرے طلسماتی علم کے زیرِ اثر آچکا تھا کہ ہم اسے زبردستی لاتے تو شاید مجھے یا یوحاوہ کو قتل کردیتا۔میں نے اس کے ذہن میں درندگی کا ایساتاثر پیدا کر دیا تھا کہ وہ قتل و غارت کے سوااور کچھ سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔اگر میں ایک درخت کی طرف یہ اشارہ کرکہ کہتا کہ یہ ہے محمد،تو وہ تلوار اس درخت کے تنے میں اتار دیتا۔مجھے یہ توقع بھی تھی کہ یہ پیچھے رہ گیا تو ہو سکتاہے کہ محمد)ﷺ( تک پہنچ جائے اور اسے قتل کر دے لیکن وہ خود قتل ہو گیا۔‘‘’’کیا تم اب یوحاوہ پر قابو پا سکو گے؟‘‘ابو جریج نے پوچھا۔’’مجھے امید ہے کہ میں اسے اپنے اثر میں لے آؤں گا۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’کیا تم مجھے اس کام میں شریک کر سکو گے؟‘‘ابو جریج نے پوچھا اور کہا۔’’میں کچھ جاننا چاہتاہوں۔ کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘’’اگربڑھاپا تمہیں چلنے دے تو چلو۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’ میں تھوڑی دیر تک روانہ ہونے والا ہوں ۔یہاں کے کچھ آدمی میرے ساتھ چلنے کوتیار ہو گئے ہیں۔‘‘’’اور پھر خالد بن ولید!‘‘ بوڑھے ابو جریج نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے خالد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جذباتی لہجے میں کہا ۔’’ہم دونوں بوڑھے،اونٹوں پر سوار اس پہاڑی علاقے میں پہنچے جہاں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ ایک عورت کو دیکھا گیا ہے۔ہم تنگ سی ایک وادی میں داخل ہوگئے۔ ہمارے پیچھے دس بارہ گھڑ سوار اور تین چار شتر سوار تھے۔ وادی میں داخل ہوئے تو ان سب نے کمانوں میں تیر ڈال لیے۔وادی آگے جاکر کھل گئی ،ہم دائیں کو گھومے تو ہمیں کئی گدھ نظر آئے جو کسی مردار کو کھا رہے تھے ۔ایک صحرائی لومڑی گدھوں میں سے دوڑتی ہوئی نکلی۔ میں نے دیکھا اس کے منہ میں ایک انسانی بازو تھا ۔
اور لومڑیاں بھاگیں اور گدھ اڑ گئے۔وہاں انسانی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں ۔سر الگ پڑا تھا۔اس کے بال لمبے اِدھر ُادھر بکھرے ہوئے تھے ۔کچھ کھوپڑی کے ساتھ تھے۔آدھے چہرے پر ابھی کھال موجود تھی وہ یوحاوہ تھی۔لیث بن موشان کچھ دیراس کی بکھری ہوئی ہڈیوں کو اور ادھ کھائی چہرے کو دیکھتا رہا۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اس کی دودھ جیسی داڑھی میں جذب ہو گئے۔ہم وہاں سے آگئے۔‘‘’’لیث بن موشان اور یوحاوہ نے جرید بن مسےّب کو محمد)ﷺ( کے قتل کیلئے تیار کیا تھا ۔‘‘خالد نے ایسے لہجے میں کہا جس میں طنز کی ہلکی سی جھلک بھی تھی ۔’’جرید بن مسیّب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور یوحاوہ کا انجام تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ……کیا تم سمجھے نہیں ہو ابو جریج؟‘‘’’ہاں ۔ہاں!‘‘بوڑھے ابو جریج نے جواب دیا۔’’لیث بن موشان کے جادو سے محمد )ﷺ(کا جادوزیادہ تیز اور طاقتور ہے۔لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ محمد)ﷺ( کے ہاتھ میں جادو ہے۔اس جادو کا ہی کرشمہ ہے کہ اس کے مذہب کو لوگ مانتے ہی چلے جا رہے ہیں۔جرید کو قتل ہونا ہی تھا۔‘‘’’میرے بزرگ دوست! ‘‘خالد نے کہا ۔’’اس بدروح کے قصّے مدینہ میں بھی پہنچے ہوں گے لیکن وہاں کوئی نہیں ڈرا ہوگا۔محمد)ﷺ( کے پیروکاروں نے تسلیم ہی نہیں کیا ہو گا کہ یہ جن بھوت یا بدروح ہے۔‘‘’’محمد)ﷺ( کے پیروکاروں کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ابو جریج نے کہا۔’’محمد)ﷺ( کے جادو نے مدینہ کے گرد حصار کھینچا ہوا ہے ،محمد)ﷺ( کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔وہ اُحد کی لڑائی میں زخمی ہوا اور زندہ رہا ۔تمہارا اور ہمارا اتنا زیادہ لشکر مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے گیا تو ایسی آندھی آئی کہ ہمارا لشکر تتّر بتّر ہو کہ بھاگا۔میدانِ جنگ میں محمد)ﷺ( کے سامنے جو بھی گیا اس کا دماغ جواب دے گیا۔کیا تم جانتے ہو خالد! محمد)ﷺ( کے قتل کی ایک اور کوشش ناکام ہو چکی ہے؟‘‘’’سنا تھا۔‘‘خالد نے کہا۔’’ پوری بات کا علم نہیں۔‘‘’’یہ خیبر کا واقعہ ہے۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’مسلمانوں نے خیبر کے یہودیوں پر چڑھائی کی تویہودی ایک دن بھی مقابلے میں نہ جم سکے۔‘‘’’فریب کار قوم میدان میں نہیں لڑ سکتی۔‘‘خالد نے کہا ۔’’یہودی پیٹھ پر وار کیاکرتے ہیں۔‘‘’’اور وہ انہوں نے خیبر میں کیا۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’یہودیوں نے مقابلہ تو کیا تھا لیکن ان پر محمد )ﷺ(کا خوف پہلے ہی طاری ہو گیاتھا۔میں نے سنا تھا کہ جب مسلمان خیبر کے مقام پرپہنچے تو یہودی مقابلے کیلئے نکل آئے۔ان میں سے بعض محمد )ﷺ(کوپہچانتے تھے۔کسی نے بلند آواز سے کہا کہ محمد بھی آیا ہے ۔پھر کسی اور نے چلا کر کہا۔محمدبھی آیا ہے۔یہودی لڑے تو سہی لیکن ان پر محمد کا خوف ایسا سوار ہوا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔‘‘
یہودیوں نے شکست کھائی تو انہوں نے رسولِ کریمﷺ سے وفاداری کااظہار کرنا شروع کر دیااور ایسے مظاہرے کیے جن سے پتا چلتا تھا کہ مسلمانوں کی محبت سے یہودیوں کے دل لبریز ہیں ۔انہی دنوں جب رسولِ کریمﷺ خیبر میں ہی تھے ۔ایک یہودن نے آپﷺ کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا۔اس نے عقیدت مندی کا ااظہار ایسے جذباتی انداز میں کیا کہ رسولِ خداﷺ نے اسے مایوس کرنا مناسب نہ سمجھا۔آپﷺ اس کے گھر چلے گئے۔آپﷺ کے ساتھ ’’بشرؓ بن البارأ ‘‘تھے۔یہودن زینب بنتِ الحارث نے جو سلّام بن شکم کی بیوی تھی۔رسولِ خداﷺ کے راستے میں آنکھیں بچھائیں اور آپﷺ کو کھانا پیش کیا۔اس نے سالم دنبہ بھونا تھا۔اس نے رسول اﷲﷺ سے پوچھا کہ ’’آپﷺ کو دنبہ کاکون ساحصہ پسند ہے؟‘‘آپﷺ نے دستی پسند فرمائی۔یہودن دنبہ کی دستی کاٹ لائی اور رسولِ خدا ﷺ اور بشرؓ بن البارأ کے آگے رکھ دی۔بشرؓ بن البارأ نے ایک بوٹی کاٹ کر منہ میں ڈال لی۔رسولِ اکرمﷺ نے بوٹی منہ میں ڈالی مگر اگل دی۔’’مت کھانا بشر!‘‘آپﷺ نے فرمایا۔’’اس گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔‘‘بشرؓ بن البارأ بوٹی چبا رہے تھے۔انہوں نے اگل تو دی لیکن زہر لعابِ دہن کے ساتھ حلق سے اتر چکا تھا۔’’اے یہودن!‘‘رسولِ خداﷺ نے فرمایا۔’’کیا میں غلط کہہ رہا ہوں کہ تو نے اس گوشت میں زہرملایا ہے؟‘‘یہودن انکار نہیں کر سکتی تھی۔اس کے جرم کا ثبوت سامنے آ گیا تھا۔ بشرؓ بن البارأ حلق پر ہاتھ رکھ کر اٹھے اور چکرا کر گر پڑے۔زہر اتنا تیز تھا کہ اس نے بشر ؓکو پھر اٹھنے نہ دیا ۔وہ زہر کی تلخی سے تڑپے اور فوت ہو گئے۔’’اے محمد!‘‘ یہودن نے بڑی دلیری سے اعتراف کیا۔’’خدائے یہودہ کی قسم! یہ میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا۔‘‘رسول اﷲﷺ نے اس یہودن اور اس کے خاوند کے قتل کا حکم فرمایااور خیبر کے یہودیوں کے ساتھ آپﷺ نے جو مشفقانہ روّیہ اختیار کیا تھا وہ ان کی ذہنیت کے مطابق بدل ڈالا۔ابنِ اسحاق لکھتے ہیں۔مروان بن عثمان نے مجھے بتایا تھا کہ رسولِ خدا ﷺ آخری مرض میں مبتلا تھے ،آپﷺ نے وفات سے دو تین روز پہلے اُمّ ِ بشر بن البارأ کو جب وہ آپ ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں ۔فرمایا تھا۔’’اُمّ ِ بشر!میں آج بھی اپنے جسم میں اس زہر کا اثر محسوس کررہا ہوں۔جو اس یہودن نے گوشت میں ملایا تھا۔میں نے گوشت چبایا نہیں اگل دیا تھا۔مگر زہر کااثر آج تک موجود ہے۔‘‘اس میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ رسول اﷲﷺ کی آخری بیماری کا باعث یہی زہر تھا۔

No comments:

Post a Comment